واشنگٹن (نمائندہ خصوصی)پاکستان نے جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن کو دوبارہ قائم کرنے اور دہائیوں پرانے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ تنازعے کو سفارت کاری کے ذریعے حل کر کے خطے کو امن کی طرف لے جانے پر زور دیا ہے۔
یہ بات امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نےٹیکساس میں ڈپلومیسی کے حوالے سے ایک کانفرنس کے دوران کہی۔کانفرنس کا انعقاد انٹرنیشنل اکیڈمی آف لیٹرز نے کیا تھا جو ثقافتی و عوامی سفارت کاری کے ذریعے تعلقات بنانے کی کوشش کرنے والا تھنک ٹینک ہے۔ مقررین میں امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سینئر اہلکارالزبتھ ہورسٹ بھی شامل تھیں۔
مسعود خان نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک توازن کو دوبارہ قائم کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جموں و کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے اور جوہری استحکام کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ، تیسرے فریق اور کثیر جہتی سفارت کاری کا سہارا لینا چاہیے۔اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ امریکا نے ہند۔بحرالکاہل کی حکمت عملی کی ترتیب میں دوستوں کا انتخاب کیا ہے،
مسعود خان نے کہا کہ پاکستان نے اپنے اقتصادی جغرافیے سے فائدہ اٹھانے کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے رابطے بڑھانے کی کوشش کی ہے، چین کے ساتھ ہمارے دفاعی اور اقتصادی تعلقات جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سلامتی اور اقتصادی تعلقات کی بھرپور ترقی یقینی بنانے کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے،ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی کے منصوبوں، زراعت، صنعت اور سپلائی چین میں واشنگٹن کی بڑھی ہوئی شراکت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
سفیر نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے امریکی ملٹری آرٹیکلزاور ٹیکنالوجی کے حصول پر فارن ملٹری سیلز (ایف ایم ایس) اور فارن ملٹری فنانسنگ (ایف ایم ایف) کے تحت باقی ماندہ پابندیوں میں نرمی کی جانی چاہیے اور ہماری دفاعی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیے خریداری کو تیز کیا جانا چاہیے۔پاکستانی سفیر نے دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں کو بھی سراہا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا نے علاقائی اور عالمی خطرات سے نمٹنے کے پختہ عزم کے ساتھ دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوبارہ سر اٹھانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ایک طاقتور اور مہلک خطرے کا سامنا ہے،
وہ امریکی افواج کے چھوڑے گئے انتہائی جدید ترین ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان سے لیس ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین سے ان کے حملوں میں 1200 سے زائد سکیورٹی اہلکار اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔مسعود خان نے کہا کہ ہم دہشت گردی کی اس لہر کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے نیٹ ورک کو ختم کریں گے،
انہوں نے پاکستان کی صلاحیت میں اضافے کے لیے امریکی انسداد دہشت گردی پروگرام شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا استحکام پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے اہم ہے؛ اور ہم نے اپنے علاوہ افغان کابینہ کے وزرا کے ساتھ امریکا کے براہ راست رابطوں کا خیرمقدم کیا ہے، یہاں تک کہ ہم نے افغان عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین کے تعلیم اور روزگار کے حقوق بحال کرے۔ مسعود خان نے گزشتہ سال سیلاب کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد پرامریکی انتظامیہ کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
اس سے قبل،امریکی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے بڑھتے ہوئے پاک امریکا تعلقات بارے کہا کہان تعلقات کو افغانستان، بھارت یا چین کی عینک سے نہیں دیکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری اصولوں، آزادی اظہار اور قانون کی حکمرانی کی یکساں طور پر اور دنیا بھر میں حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسسٹنٹ سیکرٹری ڈان لو کے خلاف الزامات جھوٹے ہیں،اس حوالے سے ہم نے عوامی اور نجی طور پر آگاہ کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستانی عوام کی منتخب کردہ کسی بھی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔