انسپکٹر حسین فاروق
ماضی قریب کے جن پولیس افسران کو تفتیش کا باباۓ آدم مانا جاتا ہے ان میں احمد خاں چدھڑ صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی کتاب "جرم نشان چھوڑتا ہے” کو پڑھیں تو ایسے گمان ہوتا ہے جیسے کوئی دیومالائی داستانوں کا اک مجموعہ ہے۔ جن مقدمات کا ذکر کیا گیا ان کو منطقی انجام تک پہنچانے کا صرف اور صرف ایک ذریعہ نظر آتا ہے اور وہ ہے "وقوعہ اور جاۓ وقوعہ”۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ وقوعہ اور جاۓ وقوعہ بول کر بتاتا ہے کہ کیا ہوا۔ جاۓ وقوعہ سے "ٹیوا” اور "جگاڑ” جیسی ٹرم ایجاد ہوئیں اور کم و بیش 150 سال تک پولیس ورکنگ پر حاوی رہیں۔ اور پولیس کی اطلاع کی بنیاد یہی دو ٹرمز رہیں۔ مخبر کا کردار ان کے بعد آتا ہے۔ ماضی کی تمام تفتیشوں کا دائرہ کار اور مرکزی کردار جاۓ وقوعہ ہوتا۔ سینئیر پولیس افسران سے سنا کہ پولیس افسران جب تک کیس حل نہ ہو جاتا جاۓ وقوعہ سے ہٹتے نہ تھے۔
موجودہ دور کی پالیسنگ خاص طور پر انویسٹی گیشن اور آپریشن ونگ علیحدہ علیحدہ ہونے کے بعد اور جدید ٹیکنالوجی کی آمد نے جس طرح باقی سوسائٹی کو متاثر کیا وہیں پولیس تفتیش پر بھی اثر انداز ہوئی۔ ٹیکنالوجی سے جہاں پولیس کو بہت زیادہ فائدہ ہوا, تیز ترین معلومات کے ذرائع میسر آئے, دنوں کا کام سیکنڈوں میں ہونے لگا وہیں چند بنیادی امور سے چشم ہوشی پولیس کا خاصہ بن گئی۔ آج کے دور کا پولیس آفیسر جدید ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر تفتیش مکمل نہیں کر سکتا۔ اگر آج ملزم کا موبائل بند ہو, اس کا ریکارڈ آن لائن نہ ہو, وہ ہوٹل آئی اور ٹی آر ایس کا استعمال نہ کرے, سی سی ٹی وی شہادت نہ ملے, لوکیٹر میسر نہ آۓ تو اگلے روز تفتیشی افسر بہت آسانی سے کہہ دیتا ہے سر میں نے یہ تمام چیزیں چیک کر لی ہیں کہیں سے معلومات نہ ملیں تو افسران بھی چپ سادھ لیتے ہیں اور اسی ورکنگ کو مکمل ورکنگ سمجھتے ہوۓ تفتیش کے لئیے مزید وقت دے دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر ماضی قریب پر نظر دوڑائیں, بہت زیادہ نہیں بس دس سال پیچھے چلے جائیں تو ان موجودہ سہولیات کا وجود تک نہ تھا۔ پولیس تفتیش بھی کرتی تھی, ملزمان کو پکڑتی بھی تھی اور انہیں عدالتوں سے سزائیں بھی دلواتی تھی۔ پولیس ورکنگ اس وقت زیادہ جامع, زیادہ مفید, معلومات اور تجربہ سے بھرپور ہوتی تھیں۔
آج جب آفس سے گھر آ رہا تھا تو تین چار گروپس میں زیر نظر ویڈیو ملی۔ اس کی عبارت سے لگتا تھا کہ کوئی مضحکہ خیز معاملہ ہے۔ تجسس سے ویڈیو دیکھی تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ میں نے دوبارہ ویڈیو دیکھی۔ میں ایس ایچ او کو نہیں جانتا۔ ویڈیو سے معلوم ہوا کہ ایس ایچ او کا نام ابتسام ہے اور وہ کمالیہ میں تعینات ہے۔ مجھے یقین نہ آیا کہ اس انداز سے تفتیش مکمل ہوئی۔ میں نے تصدیق کے لئیے ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ سید کرار شاہ صاحب کو کال کی۔ انہوں نے نہ صرف وقوعہ کی تصدیق کی بلکہ بڑے شاندار الفاظ میں ایس ایچ او اور اس کی ٹیم کی تعریف کی اور بتایا کہ بالکل ایسے ہی ملزمان کو ٹریس کیا گیا۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ میرے خیالات کا تانتا احمد خان چدھڑ صاحب کے دور کی طرف گیا جب وقوعہ اور جاۓ وقوعہ ہی پولیس تفتیش کی کل اساس تھا۔ جب کڑی سے کڑی ملا کر پولیس افسران ملزمان تک پہنچتے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچاتے۔ یہ ویڈیو ہم تمام پولیس افسران کے لئیے جو 2002 کے بعد محکمہ میں پیدا ہوۓ, جن کو جدید ٹیکنالوجی کی گھٹی ملی اور جو جاۓ وقوعہ کا سرسری ملاحظہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ جاۓ وقوعہ کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور وزن محسوس کرتے ہیں, ان کے لئیے سبق ہے کہ کس طرح جدید ٹیکنالوجی کے نہ ہوتے ہوۓ بھی اپنی عقل استعمال کر کے ملزمان تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اگر میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لوں تو مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ اس نوجوان ایس ایچ او کے طریقہ تفتیش کے سامنے مجھے اپنا اور میرے جیسے سینکڑوں پولیس افسران کا طریقہ تفتیش بہت ہیچ اور نچلی سطح کا لگا, جو "جگاڑ” اور "ٹیوے” سے رشتہ توڑ چکے۔ جس انداز سے ایس ایچ او نے تفتیش کو منطقی انجام تک پہنچایا وہ نہ صرف اس انعام کا مستحق ہے جو اسے دیا گیا بلکہ آئی جی صاحب کی جانب سے شروع کیا گیا سلسلہ جس میں وہ غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسران کے ساتھ خصوصی نشست رکھتے ہیں, خود اپنے جونئیرز کا تعارف کرواتے ہیں اور انکی غیر معمولی انداز میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں کا بھی مستحق ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اسے دن دگنی رات چگنی ترقی عطاء فرماۓ۔ اسے نوجوانوں کے لئیے مشعل راہ بناۓ, اور ملک وملت کی یونہی خدمت کا جزبہ عطاء کئیے رکھے۔ آمین۔
دل زندہ و بيدار اگر ہو تو بتدريج,
بندے کو عطا کرتے ہيں چشم نگراں اور ۔
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ,
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور۔
الفاظ و معاني ميں تفاوت نہيں ليکن,
ملا کي اذاں اور مجاہد کي اذاں اور۔
پرواز ہے دونوں کي اسي ايک فضا ميں,
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہيں کا جہاں اور۔