کنکریاں۔ کاشف مرزا
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قصور کی تحصیل چونیاں میں بچوں کے اغواء زیادتی اور قتل کے واقعات میں ملوث ملزمسہیل شہزاد کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی کا وعدہ پورا کرینگے۔بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکے ہیں اور پاکستان بھی اس سنگین مسئلہ سے دوچار ہے۔دنیا میں سالانہ 246ملین یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ لڑکے اور لڑکیاں سکول میں ہونے والے جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق 18 سال کی عمر تک کے تمام کم سن افراد کو بچہ کہا جاتا ہے۔اس حساب سے پاکستان کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔1912ء میں امریکہ میں ”CAPTA” آرگنائزیشن سرگرم عمل ہوئی اور بچوں کو جنسی، جذباتی اور نفسیاتی دبائو سے دور رکھنے کے لیے بل پاس ہوا۔جس کے محرکات میں مجرموں پر سزائوں کا اطلاق،بچوں کو جنسی مسائل سے آگہی اور اس سے متعلق جرائم سے آگہی مقصود تھا۔ جسکا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جنسی تشدد، دبائواورغیر انسانی سلوک سے خوفزدہ ہونے کیبجائے اُنکامقابلہ کیا جائےاور بروقت ایسی سرگرمیوں کوان اداروں کے ریکارڈ تک لایا جائے تاکہ ان جرائم کا سدِباب ہو سکے۔
سال 2017 پاکستان میں اس نوعیت کے 4139واقعات درج کئے گئے جن میں پنجاب 1089واقعات کے ساتھ باقی صوبوں کے مقابلے میں سرفہرست ہے۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں قصور کے علاقے میں بچوںکے ساتھ جنسی زیادتی کے 1272واقعات ہوئےاوران واقعات میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔سال2008میں واقعات کی شرح 6.2 فیصدتھی،جبکہ 2018 میں یہ تعداد 16.2 فیصد ہو گئی۔ایک اندازےکے مطابق 2018ء میں جنسی تشدد کا شکار ہونےوالی بچیوں کی تعداد 32 %ہے جن میں زیادہ تر عمر کا تعین 6 سال سے 15 سال کیا گیا ہے۔2018 میں تقریبا5,832 واقعات پیش آئے جو سنہ 2017 کی نسبت 11 فیصد زیادہ تھے۔2019 ء کے آغاز میں معصوم فریال کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ پھر یہ بربریت کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔سال 2019 کے دوران اب تک تیرہ سو چار بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے ۔سوائے زینب کے قاتل کے کسی کو پھانسی کی سزا نہ ہوئی جسکی وجہ مقدمات کا تعطل کا شکار ہونا،پولیس کی سست روی اور قاتل کانہ پکڑا جانا ہے۔حال ہی میں’’فرشتہ‘‘ جیسی معصوم اور تین سالہ فرشتہ صفت بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل ایک وہ اندوہناک واقعہ ہے کہ جس نے پورے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا اور ہمیں یہ سوچنے پرمجبور کر دیا کہ ہم آج تک کیوں اس گھنائونے جرم کے خلاف سزائیں لاگو نہیں کر سکے اور پاکستان میں جنسی تشدد کے تیزی سے بڑھنے کے کیا اسباب و نتائج ہو سکتے ہیں۔
اعداد و شمار کو دیکھیں تو اسکا مطلب ہے پاکستان میں روزانہ 12 بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔اگر ان واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملوث افراد میں زیادہ تر وہ تھے، جو کہ بچوں سے واقفیت رکھتے تھے۔اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ قریبی تعلقات رکھنے والے افراد ہی بچوں کا سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔33 فیصد واقعات دیہی جبکہ67 فیصد شہری علاقوں سے سامنے آئے۔یہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے کیس منظرِ عام پر تو آ رہے ہیں لیکن سزاؤں کی شرح اب بھی بہت کم ہے جسکی وجہ سے گذشتہ 5 سے 6 سالوں کے اندر ایسے واقعات میں 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔آرٹیکل 34کے تحت بچوں پر جنسی تشدد کےواقعات کی روک تھام ریاست کی ذمہ داری ہے۔یو این سی آر سی, یونایئٹڈ نیشن چائلڈ رائٹس کنونشن 1989کے تحت پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھےاوریہ ایک انٹرنیشنل کنونشن ہے۔
مقدمات کے اندراج کے وقت حقائق کےمطابق دفعات کا اندراج نہیں کیا جاتا اوران واقعات کا معمول کے مطابق زیر دفعہ 376یا377اندرا ج کیا جاتا ہے حالانکہ 2015ء کریمنل لاء(ترمیم) کے تحت 377A ,377B اورجنسی ہراساں کرنے کی دیگر دفعات 292A,B,C کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن مقدمات کے اندراج میں یہ دفعات شامل نہیں کی جاتیں۔ڈی این اے رپورٹ کے بروقت نہ ملنے کی وجہ سے80فیصد مقدمات کی تفتیش ایک طویل عرصہ تک التواء کا شکار رہتی ہے۔فرانزک سائنس لیبارٹری کے حوالے سےڈی این اے ناقابل تردید ثبوت ہے۔ فرانزک سائنس لیبارٹری میں 376اور 377 دفعات کے تحت بھجوائے جانیوالے نمونوں کی بروقت رپورٹ کیلئے الگ سیل قائم کیا ہے۔اگر ڈویژنل سطح پر قائم پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹریوں کے دفاتر کو نمونے وصول کرنے کا اختیار دے دیاجا ئےاور مقررہ مدت میں رپورٹ جاری ہو جائے تو انصاف کی فراہمی میں تیزی آسکتی ہے۔بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کے مقدمات کے فیصلوں کیلئے مدت کا تعین اور ملزمان کو بروقت سزائیں دینے جیسے ترجیحی اقدامات کرنے کیلئے حکومت کو موثر قانون سازی کرنا ہو گی۔
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد پاکستان میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور حکومت نے اس بارے میں قانون سازی اور واقعات کی روک تھام کے لیے بڑے بڑے وعدے کیے تھے لیکن ان واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہو سکی۔”زینب الرٹ بل“ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں پڑا ہوا ہے،اس بل کو فوری طور پر قومی اسمبلی میں بھیجا جائے تاکہ منظور کرایا جا سکے۔بدقسمتی سے چائلڈپورنو گرافی میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ملک میں بچوں سے جنسی بدسلوکی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ماہر نفسیات کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوےکیسسززکی ایک بڑی وجہ آسانی سے دستیاب غیر اخلاقی فلمیں بھی ہیں۔پاکستان کا آئین بچوں کے مسائل پر تو بحث کرتا ہے لیکن واضح اور مکمل طور پر چائلڈ پروٹیکشن کے قانون کا فقدان نظر آتا ہے۔آرٹیکل گیارہ کی تیسری شق اس بات پر زور دیتی ہے کہ بچوں کو جبراً غلامی اور مشقت والے کاموں سے منع کیا گیا ہےاوران میں آگہی اور شعور کے لیے آرٹیکل کی شق A-25 کے مطابق ہر بچے کے لیے پانچ سے سولہ سال تک تعلیم مفت ہو گی۔اسی آرٹیکل کی دوسری شق کے مطابق عورتوں اوربچوں میں مساوات کا حکم ہےلیکن بچوں پرجنسی تشدد اوران سےمحفوظ رکھنےکےلیےاس شق میں بھی کوئی ا یسا نکتہ یا محرک نہیں ہےجو بچوں میں نہ صرف اعتماد پیدا کرے بلکہ اسےاس قابل بنائے کہ وہ شعور کی اس منزل پر پہنچ جائے جہاں وہ جنسی تشدد جیسے واقعات سے ہراساں ہونے کی بجائےاسکا مقابلہ کر سکےاورکسی کے ورغلانےیابہکانےمیں نہ آ سکے۔2009ء میں نیشنل کمیشن آف رائٹس آف چلڈرن بل میں جنسی دبائو کے تحت اگر چند امور پر کام بھی ہوا تو اس پر عملدرآمد نہ ہو سکااور یہ قانون التوا میں چلا گیا۔
پاکستان میں جنسی تشدد جیسے واقعات میں اضافے کی وجہ صرف یہ رہی کہ بچوں کی پروٹیکشن کے سلسلے میں شدید ناکامی ہوئی اوربچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اس مسئلہ کے مناسب طور پر سدِباب نہ ہونے کی وجوہات میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی، واضح اور مضبوط قانون کا نہ ہونا اور مجرموں کو بروقت سزائیں نہ دینا ہے۔حکومت بجٹ کا صرف 1.7 فیصد بچوں کی تعلیم پر لگاتی ہےاور 0.247 انکی صحت کے لیے مختص کرتی ہے لہٰذا جنسی دبائو جیسے محرکات سے نمٹنا تو بہت دورکی بات ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن میں ناکامی کی وجہ غریبی، بے روزگاری، لاقانونیت اور وہ نفسانفسی ہے جس نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔ ہمیں اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے بہت سی قانون سازیوں کی ضرورت ہےاوراُن پالیسیوں کا نفاذ بھی ازحد ضروری ہے تاکہ جنسی تشدد کے واقعات میں کسی حد تک کمی لائی جا سکے۔پاکستان کے یہی بچے جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے،اسوقت بہت سارے مسائل سے نبردآزما ہیں،مگر ان سارے مسائل میں پاکستان میں بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات سب سے زیادہ باعث تشویش ہیں۔ان واقعات میں نشانہ بننے والے افراد اور انکے خاندان کی زندگیوں پر عمر بھر کے لیے منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں جو کہ مجموعی طور پر پوری قوم کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔اس جرم کے مرتکب افراد کے حوالے سے ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر ملزمان بچپن میں خود اس قسم کی زیادتی کا شکار ہو چکے ہوتے یا انہوں نے کسی کے ساتھ زیادتی ہوتا دیکھی ہو تو بڑے ہو کر وہی حرکت دوسرے بچو ں کے ساتھ کرتے ہیں۔ملزمان بچوں کے ساتھ زیادہ تر پیار کا حربہ ا ختیارکرتے ہیں اگر بچے کو گھر سے توجہ نہ ملے تو وہ باآسانی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔والدین اور بچوں میں بات چیت کا عمل اور رابطہ کمزور ہونا بنیادی کوتاہی میں شامل ہوتا ہے۔والدین بچوں کو جتتا اعتماد د ے کر رابط مضبوط رکھیں گے بچہ اتنا محفوظ رہے گااوراگر کوئی کوشش کرے گا تو بچہ فوراً والدین کو بتا ئے گا۔بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش یا زیادتی کی صورت میں بچہ انتہائی خوف کا شکار ہو جاتا ہے اور ان میں مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں بستر گیلا کرنا،دباؤ کا شکار ہونا،سکول میں کار کردگی کا متاثر ہونا،ڈراؤنے خواب،کھانا پینا کم کر دینا،رویوں میں تبدیلی اور تنہائی پسند ہونا شامل ہیں۔والدین بچوں کی کسی حرکت کو ہر گز نظر انداز نہ کریں بلکہ ان پر نظر رکھیں اگر بچہ کسی خاص جگہ یا شخص سے ڈرتا یا گھبراتا ہے تو وجہ جاننے کی کوشش کریں اور بچے کی طرف متوجہ ہوں۔
پاکستان ترقی پذیر ملک ہے جہاں غربت، بیروزگاری اور محرومیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔معصوم بچوں کو جنسی ہوس کا شکار بنا کر اُنکو قتل کر دینا روزمرہ کا معمول بن گیا۔بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روکنےاوراسطرح کے جرائم کی روک تھام کیلئے جہاں معاشرے کے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا وہاں پاکستا ن ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرکے غیر اخلاقی وبےراہ روی پھیلانےوالی ویب سائٹس کو بلاک کرنےکے یقینی اقدامات کرناہونگے۔اخبارات ،ٹی وی،ریڈیو کومستقل بنیادوں پر آگاہی مہم چلاناہو گی۔سکولوں کی سطح پر بچوں اوروالدین میں شعوراجاگر کرنے کیلئے آ گاہی مہم کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا ہوگا۔زیادتی کا شکار بچوں کے غم کا مداونہ ہوتو اسکی شخصیت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بچوں سے زیادتی اوراحتیاطی تدابیر کے حوالے سے باب نصاب میں شامل ہونا چاہیےاوراس معاملے پر سرکاری اسکولوں میں مہم چلانی چاہئے۔اگر بچے محفوظ نہ ہوں تو پھر ترقی کا کوئی فائدہ نہیں۔بچے کسی بھی ملک و قوم کے معمار ومستقبل ہوتے ہیں اورمعصوم بچوں کامحفوظ مستقبل ہی محفوظ پاکستان کی ضمانت ہے۔بچوں کا محفوظ مستقبل ہم سبکی ذمہ داری ہے۔بچوں پرجنسی تشددکی روک تھام کیلئےاساتذہ،والدین،میڈیا،سول سوسائٹی سمیت پورے معاشرے کو اپناکردار اداکرنا ہوگا۔اس معاملہ پر بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو آگاہی فراہم کی جا سکے۔بچوں پر جنسی تشددسے تحفظ کیلئےان میں شعور اجاگرکرنا ضروری ہے۔یہ ہمارا اسلامی ،آئینی اوراخلاقی فرض بھی ہے!
مصنف آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کے صدرہیں۔
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔