تحریر:عزیز اللہ خان ایڈوکیٹ (قسط نمبر1)
SHOمہر عبدالرحمن سیال کا تبادلہ ہوچکا تھا اور نئے SHOظفر اللہ وڑائچ آچکے تھے۔ نئے SHOکی طبعیت بڑی عجیب سی تھی ہر بات میں کڑھنا اور عیب نکالنے ان کی عادت تھی۔کیونکہ سیاسی طور پریزمان میں جٹ اور آرائیں کی آپس میں شدید کشیدگی پائی جاتی تھی جو اب بھی ہے اس لیے SHOظفر اللہ وڑائچ جٹ ہونے کے ناطے آرائیں برادری میں ناپسندیدہ تھے۔ آرائیں برادری ان سے خوش نہ تھی قصبہ یزمان میں نقب زنی کی وارداتیں اچانک بہت زیادہ ہوگئیں تھیں۔اسی طرح چھت پر سوئے ایک شخص کو بھی نقب زنی کی واردات کے دوران سر میں کوئی نوک دار چیز مار کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جسکی وجہ سے قصبہ میں خاصہ خوف وہراس پایا جاتا تھا۔
چوہدری یوسف ہیڈ کانسٹیبل بھی میرے ساتھ تھا اس نے اسلم ڈبہ کوا یک تھپڑمارا تو وہ زمین پر گرپڑا اور بہوش ہوگیا۔اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہوش میں نہیں آرہا تھا۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ بہانہ کررہاہے۔میں نے فقیرحسین کانسٹیبل کو تحصیل ہسپتال یزمان بھجوایا کہ وہاں سے ڈاکٹر آفاق کو لے کر آئے۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آفاق بھی آگیا۔اسلم ڈبہ کامعائنہ کرنے کے بعد بولا بہانہ کررہا ہے ابھی ہوش میں آجاتا ہے۔اپنے ساتھ آئے ڈسپنسر کو بولا ہسپتال سے(امونیا بائی کارب) لے کر آئے کچھ دیر بعد ڈسپنسر واپس آیا جس کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی ڈاکٹر آفاق نے وہ بوتل اسلم ڈبے کے ناک سے لگائی اور منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔چند لمحہ بعداسلم ڈبہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ہم سب ہنسنے لگے۔
یہ اکتوبر 1984ء کا واقعہ ہے محرم کا مہینہ شروع ہوچکا تھا چھ تاریخ تھی میں نے SHOسے گھر جانے کی اجازت مانگی چوہدری یوسف کو کہا کہ وہ ان لڑکوں سے مزید تفتیش کرے اور میں احمد پور شرقیہ چلا گیا۔یزمان سے احمد پور شرقیہ تقریباََ 50کلو میٹر دور ہے رات میں نے گھر گزاری اگلے روز میں واپس تھانہ یزمان پہنچا تو تھا نے کا ماحول کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔
تھانہ میں کافی رش تھا میں نے چوہدری یوسف سے پوچھا تو اس نے مجھے بتایا کہ آپ کے جانے کے بعد اسلم ڈبہ کو آپکے کمرہ میں بند کردیا تھا کیونکہ اسکی طبعیت ٹھیک نہیں تھی جبکہ باقی ملزمان کو حوالات میں بند کردیا۔دروازہ باہر سے بند تھا اور سنتری کو بتادیا تھا کہ اس کا بھی خیال رکھے۔رات کے پچھلے پہر سنتری کی آنکھ لگ گئی کیونکہ آپکے کمرہ کی کھڑی میں سلاخیں نہیں ہیں صرف جالی لگی ہوئی تھی اسلم ڈبہ موقع کا فائدہ اٹھا کر جالی توڑ کر فرار ہوگیا۔تھانہ یزمان کی کوئی سرکاری عمارت نہ تھی بلکہ تھانہ ریلوے کے کواٹرز میں بنایا گیا تھا اور اسکی دیواریں بھی چھوٹی تھیں جس سے کوئی بھی شخص با آسانی پھلانگ کر باہر جاسکتا تھا۔تھانہ پر اسلم ڈبہ کا والد مشتاق چیمہ اور اسکا چچا شبیر چیمہ بھی موجود تھا جس کو ہم سب نے یقین دلایا کہ اسلم ڈبہ واقعی بھاگ گیا ہے مل جائے گا۔
ہم سب اپنے طور پراسلم ڈبہ کو تلاش کرتے رہے لیکن اسکا کچھ پتہ نہ چلا۔حالات دن بدن کشیدہ ہو رہے تھے اور اسلم ڈبہ کا والد اس بات پر بضد تھاکہ ان کا لڑکا جس حال میں بھی ہے واپس کیاجائے۔کیونکہ آرائیں برادری SHOظفرا للہ وڑائچ کی تعیناتی کے خلاف تھی چوہدری اقبال آرائیں المعروف شیر یزمان کے علاوہ انسپکٹرملک نصیراعوان کا بھائی ظفر اعوان بھی چیمہ برادری کیساتھ مل کر اس مسئلہ کو ہوا دینے لگا۔ اسلم ڈبہ کے وراثاء اس وقت زیادہ شک میں پڑگئے جب انھیں ڈاکٹر آفاق کے تھانہ پر آنے اور اسلم ڈبہ کو چیک کرنے کے بارے میں پتہ چلامگر SHOاس بات سے صاف انکاری ہوگیاکہ کوئی ڈاکٹر تھانہ پر آیا تھااس بات کی تصدیق انھوں نے ڈاکٹر آفاق سے کی تو اس نے بتایا کہ وہ واقعی تھانہ پر گیا تھا اور اسلم ڈبہ کا علاج بھی کیا تھا کیونکہ داکٹر آفاق بھی جٹ برادری سے تعلق رکھتا تھااس لیے اس نے یہ بات نہیں بتائی کہ اسلم ڈبہ مکر کررہا تھا
اب وراثاء مزید تشویس میں مبتلاہو گئے کہ اسلم ڈبہ دوران تفتیش پولیس کے ہاتھوں ہلا ک ہوگیا ہے۔ایک ہفتہ بعد شام تقریباََ4بجے میں یزمان بازار میں موجودتھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ ہیڈراجکاں پل پر نہر سے ایک لڑکے کی لاش ملی ہے جسکا سر اور بازو کٹاہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے لاش اٹھا کر سڑک پر رکھ دی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ لاش اسلم عرف ڈبہ کی ہے جسے کچھ یوم قبل پولیس نے تشددکرکے مار دیا تھا۔ اس کا سر اور بازوبھی کاٹ دیا تاکہ شناخت نہ ہوسکے۔میں ابھی بازار میں ہی موجود تھا کہ خبر ملی کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں اور تھانہ کا گھیراو کرلیا ہے۔تھانہ میں موجود پولیس ملازمین پر تشدد کررہے ہیں اور لوگوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے
میں نے تھانہ سے چار کلومیٹر دورچک نمبر56میں اپنے ایک دوست عبدالمالک جوکہ بلدیہ میں ملازمت کرتا تھاسے گھر کرائے پر لے رکھا تھا۔ میں فوری طور پر اپنے گھر چلا گیا۔عبدالمالک میرے گھر آیا تو کافی پریشان لگ رہا تھا جس نے مجھے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے تھانہ کو آگ لگا دی، ملازمین نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی ہے تھانہ کا ریکارڈ اور سارا سامان جل گیا ہے سب سے زیادہ نا م آپکا آرہا ہے کیونکہ اسلم ڈبہ کو آپ نے گرفتار کیا تھا لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے ہی اسے قتل کردیا ہے۔میں نے تھانہ کی طرف جانا چاہا تو عبدالمالک نے مجھے روکا اور کہا کہ حالات اچھے نہیں ہیں آپ تھانہ پر مت جائیں۔ اسلم ڈبہ کے ورثا ء اور ہجوم بہت زیادہ مشتعل ہے وہ کہیں آپکو نقصان نہ پہنچا دیں۔میں اسکے کہنے پر تھانہ نہ گیااورگھر پر ہی موجود رہا عبدالمالک وقتاََ فوقتاََ مجھے تمام حالات بتاتا رہا۔
رات تقریباََ10بجے اس نے مجھے بتایا کے حالات بہت کشیدہ ہوچکے ہیں فوج آچکی ہے لیکن لوگ ابھی بھی مشتعل ہیں۔DIGاور SSPبہاولپور بھی موقع پر موجود ہیں اور یہ ہدایت کی گئی ہے کہ تھانہ میں حاضر تما م ملازمین کو گرفتار کرلیا جائے۔ آپ یہاں نہ رہیں اور کہیں چلے جائیں۔مجھے یاد ہے تین دن پہلے میں نے نیا ہنڈا 125سواری کے لیے لیا تھا میں اپنے ہنڈا پر بیٹھا اور اپنے آبائی گھر احمد پور شرقیہ پہنچ گیا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو گیاہے۔ایک ایسا کام جو میں نے نہیں کیا تھا نہ میں نے کسی کوقتل کیا تھا اور نہ ہی لاش نہر میں پھینکی تھی۔گھر پہنچ کر میں نے تمام حالات اپنے بڑے بھائی حفیظ خان کوبتائے وہ ان دنوں سی ایس ایس کی تیاری کر رہے تھے۔سارے گھر والے پریشان ہوگئے۔
اگلے دن مختلف اخبارات میں شہ سرخیاں لگی ہوئی تھیں جس میں پولیس کے ظلم و ستم کی داستانیں تحریر تھیں اور اخبارات میں یہ بھی درج تھا کہ پولیس والوں نے کس طرح بے دردی سے مقتول اسلم ڈبہ کی گردن وبازو کاٹااور کس طرح اس کے دل، گردے، جگر بھی نکال لیے۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں کوئی میری بات پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھاکہ پولیس ملازمین نے اسلم ڈبہ کو تشدد میں نہیں مارا۔اخبار میں سب سے زیادہ میرا نام تھا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔