تحریر : کاشف جاوید
کل رات 12ویں فیل فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا کیا کلاس کی فلم تھی اور میرا خیال ہے کوئی بھی صاحب جذبات بندہ اس کو دیکھے تو وہ روئے بغیر نہیں رہ سکتا آپ ایک دفعہ دیکھ کر دیکھیں ایک ایسا نوجوان جس کے پاس کچھ نہیں سوائے ایک خواب کے وہ خواب جو ہمارے جیسے ہزاروں لاکھوں نوجوان دیکھتے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر راستے میں کہیں ہار مان لیتے ہیں کیونکہ زندگی خوابوں کے سہارے نہیں چلتی روٹی روزگار اور حقیقت کی سخت زمین پر کھڑے ہو کر آگے بڑھنے کے لیے کچھ اور بھی چاہیے ہوتا ہے
یہ فلم نہیں ہر پاکستانی مڈل کلاس نوجوان کی کہانی ہے وہی نوجوان جس کی بہن کی شادی بھی سر پر ہوتی ہے ماں بیمار ہوتی ہے دادی کا علاج کروانا ہوتا ہے باپ کے پاس سرکاری نوکری ہو تو محدود تنخواہ میں گزارا کرتا ہے اگر زمیندار ہو تو کبھی موسم کبھی قرضے اور کبھی زمین کے جھگڑوں میں پھنسا رہتا ہے اور اسی دوران اگر اسے کسی سے محبت ہو جائے تو وہ خود ہی اپنی محبت کا گلا گھونٹ دیتا ہے کیونکہ غریبی میں محبت کی اجازت نہیں ہوتی یہ آج کا سب سے تلخ سچ ہے جس پر کوئی فلم نہیں بنتی کوئی کہانی نہیں لکھی جاتی
فلم میں ایک لمحہ آتا ہے جب ہیرو اپنا فائنل انٹرویو دے کر باہر آتا ہے اور لڑکی کہتی ہے
چاہے تم آئی پی ایس افسر بنو یا نہ بنو میں تمہارے ساتھ ہوں
یہ جملہ دل کو تو لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا کہاں ہوتا ہے یہاں تو نوکری لگنے کے بعد بھی ساتھ دینے والے نہیں ملتے محبت تو بہت دور کی بات ہے لیکن جذباتی لمحے اور حقیقت کے درمیان جو خلیج ہے وہی اصل مسئلہ ہے خواب ہمیشہ حقیقت سے زیادہ خوبصورت لگتے ہیں مگر حقیقت خوابوں کی طرح حسین نہیں ہوتی
فلم کا ایک اور حیران کن پہلو ڈاکٹر وکاس دیویا کرتی کی موجودگی ہے وہی وکاس دیویا کرتی جو پانچ سال پہلے اپنی اکیڈمی میں انہی نوجوانوں کو سول سروسز کے امتحانات کے لیے تیار کر رہے تھے انٹرویوز لے رہے تھے اور فلم میں بھی انہیں ہی دکھایا گیا جیسے حقیقت کو جوں کا توں سلور اسکرین پر اتار دیا گیا ہو سوچیں بھارت نے اپنے اصل ماہرین کو فلم میں شامل کیا مگر اصل امیدوار کو ہیرو نہیں بنایا ایک اداکار کو اس کی جگہ لے آیا
یہ سب دیکھ کر ذہن فوراً سی ایس ایس کے 2023 کے نتائج کی طرف چلا جاتا ہے تیرہ ہزار آٹھ امیدوار صرف دو سو دس کامیاب کامیابی کی شرح تین فیصد سے بھی کم ایک سو چھبیس مرد چوراسی خواتین سوال یہ ہے کہ کیا امتحان واقعی اتنا مشکل ہے کہ صرف تین فیصد لوگ ہی پاس ہو سکتے ہیں یا پھر کامیاب امیدواروں کی فہرست کہیں اور بنائی جاتی ہے
بھارت میں یو پی ایس سی کا امتحانی نظام دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں سول سروسز میں مختلف طبقات کے امیدواروں کو شامل کرنے کے لیے ایک منظم اور شفاف نظام موجود ہے کوچنگ سینٹرز انہیں مکمل رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر میرٹ اور شفافیت کی سختی سے پاسداری کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بھی دروازے بند ہوتے ہیں سفارشی کلچر اقربا پروری اور طاقتور طبقے کے مفادات ہر محنتی نوجوان کے راستے میں رکاوٹ بنے کھڑے ہوتے ہیں بھارت نے انگریزوں کا دیا ہوا بیوروکریسی کا نظام اپنے حالات کے مطابق بہتر بنایا جبکہ پاکستان آج بھی اسی پرانی نوآبادیاتی ذہنیت میں جکڑا ہوا ہے جہاں اشرافیہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں اور عام آدمی کے لیے سب کچھ بند
بھارت میں سول سروسز کے امتحانات کی تیاری کے لیے بہترین کوچنگ سینٹرز موجود ہیں جبکہ پاکستان میں صرف موٹیویشنل اسپیکرز کی ایک فوج کھڑی ہے جو نوجوانوں کو بس زبانی جمع خرچ میں الجھائے رکھتی ہے تم کر سکتے ہو تم عظیم ہو کامیابی تمہارے قدم چومے گی جیسے جملے بیچنے والے خود کسی امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے مگر دوسروں کو کامیابی کے خواب بیچ رہے ہیں عملی زندگی میں ان لیکچرز کا کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ چند لمحوں کے لیے جوش پیدا ہو جائے مگر اصل زندگی میں وہی پریشانیاں وہی محرومیاں وہی خواب جو حقیقت کی زمین پر ٹک نہیں پاتے
پاکستان میں سول سروسز کے زوال کی بنیادی وجوہات سب کو معلوم ہیں سفارش اقربا پروری اور اصلاحات کا فقدان اگر ہم واقعی اپنی بیوروکریسی کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں تو بھارت کی طرح شفافیت اور میرٹ پر زور دینا ہوگا ورنہ یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا اور وہی تین فیصد لوگ پاس ہوتے رہیں گے وہی عام آدمی ناکام ٹھہرتا رہے گا اور وہی خواب بکھرتے رہیں گے یہ فلم نہیں ایک خواب ہے فرق بس اتنا ہے کہ بھارت نے اپنے خواب حقیقت میں بدل دیے اور ہم خواب بیچنے والوں کے رحم و کرم پر ہیں
نوٹ: لکھاریوں کےذاتی خیالات سے”قلم کلب”کامتفق ہوناضروری نہیں ہے۔