اکثر لوگ زندگی کے مقصد کو یوں تلاش کرتے ہیں جیسے یہ کوئی کھویا ہوا خزانہ ہو جو کسی صوفی کی بات، کسی کتاب کے ورق یا کسی فلسفی کے قول میں دفن ہو۔ مگر میرے نزدیک زندگی کا مقصد وہی ہونا چاہیے جو ہم خود طے کریں۔ کیونکہ یہ سوال بذاتِ خود ایک کائناتی مذاق ہے، ہر کسی کا اپنا جواب ہے اور میرا جواب بھی محض ایک امکان۔ آپ چاہیں تو اختلاف کریں کہ اختلاف کی چنگاری ہی وہ آگ ہے جو سوچ کے زنگ کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور نئے خیالات کو جنم دیتی ہے۔
ہم کہاں پیدا ہوئے، کس ماحول میں، کس ماں باپ کے ہاں، یہ سب ہمارے بس میں نہیں تھا۔ یہ فطرت کا کھیل ہے یا تقدیر کی ستم ظریفی، کہہ لیں جو بھی مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم بنا کسی منصوبہ بندی کے اس دنیا میں آن دھمکتے ہیں۔ جب آ ہی گئے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا زندگی کا کوئی مقصد ہونا چاہیے؟ ہونا چاہیے تو اچھا، نہ ہو تو بھی کچھ بگڑتا نہیں۔ کچھ لوگ زندگی کو ایک رواں دواں دریا سمجھ کر بہتے چلے جاتے ہیں، کچھ بغاوت کی چٹان بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ بس یونہی ریت کی مانند وقت کی مٹھی سے پھسلتے رہتے ہیں۔ مگر ان سب میں وہی لوگ نمایاں ہوتے ہیں جو خود کو سنوارنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں، جو رسمی تعلیم کے بعد بھی سیکھنے کا دامن نہیں چھوڑتے، جو فلسفے، ادب، تاریخ، مذہب، سائنس، موسیقی، آرٹ، معاشیات اور زندگی کے دیگر پیچیدہ رنگوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ علم وہی کارگر ہوتا ہے جو سطحی نہ ہو، جو دل میں اتر جائے اور شعور کی بنیادیں مضبوط کرے۔ جیسا کہ نطشے کہتا ہے: "جس کے پاس ‘کیوں’ جینے کا جواب ہو، وہ کسی بھی ‘کیسے’ کو سہہ سکتا ہے۔”
زندگی کی دیگر حقیقتوں کی طرح سیکس بھی ایک بنیادی حقیقت ہے، جس سے نظریں چرانا محض فریبِ نفس ہے۔ مگر یہ تعلق برابری کا ہونا چاہیے، جہاں کوئی ایک مالک اور دوسرا محکوم نہ ہو، جہاں جذبات کی آزادی ہو، جہاں جسم صرف جسم نہ رہے بلکہ روح کی سرگوشیوں میں ڈھل جائے۔ بندھن جبری ہو تو رشتے زنجیر بن جاتے ہیں اور زنجیر باندھی جائے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ اسی طرح نسل بڑھانے کا معاملہ بھی جذباتی فیصلوں کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا پہلے ہی انسانوں سے بھری پڑی ہے، وسائل گھٹ رہے ہیں، زمین کراہ رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر آنے والا بچہ آپ کے خون سے ہو، کوئی بے سہارا بچہ بھی آپ کی محبت سے سنور سکتا ہے۔ انسانیت کی بقا صرف پیدائش سے نہیں، پرورش سے ہے۔
زندگی جمود میں گزارنے کا نام نہیں۔ سوال کرنا، سیکھنا، تجربہ کرنا اور روایات سے ٹکرانا ہی اصل زیست ہے۔ جو ہجوم کا حصہ بن گیا، وہ بھیڑ میں کھو گیا۔ راستے خود تراشنے پڑتے ہیں، ورنہ وقت کے ساتھ گرد میں دب جانا مقدر ٹھہرتا ہے۔ دنیا نے وہی دیا جو کسی نے اس سے چھینا، جو جھپٹنے کا حوصلہ نہ رکھے، وہ فقط تماشائی ہی رہتا ہے۔