تحریر: شانِ محمد چوہدری
کچھ دن پہلے تحریکِ انصاف نے پارلیمنٹ میں پہلا بجٹ پیش کیا. اس بجٹ پر تنقید کے پہاڑ توڑے گئے. کمال یہ ہے کہ تنقید کرنے والے حضرات سے اگر ایک سوال کیا جائے ” کہ حضرت آپ صرف یہ بتائیے کہ اسمبلی میں کتنی رقم کا بجٹ پیش کیا گیا“ تو یقین جانیں بہت سے اسمبلی ممبر ز کو بجٹ کے کل تخمینے کا اندازہ بھی نہیں ہو گا. قارئین! یہ دور چونکہ سوشل میڈیا، براڈکاسٹ میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا دور ہے اس لئے کوئی بھی بات وائرل ہونے میں دیر نہیں لگتی، چاہے وہ درست ہو یا غلط. عام عوام بھی اِس طرح سے یقین کرتی ہے کہ بس یہی سچ ہے. کسی بھی ملک کا مالیاتی نظام اس ملک کے بجٹ سے جڑا ہوا ہوتا ہے. عام طور پر مختلف ٹیلیویزن چینلز پر مو جود بہت سے کالم نگار، پروگرام ہوسٹ، سیاسی اپوزیشن پارٹیز اور تجزیہ کار نے موجودہ سال 2019-20 کے بجٹ کو عوام دشمن قرار دے دیا. سونے پہ سہاگہ بڑے بڑے کالم نگار وں نے تو یہ بھی کہ دیا کہ عمران خان اس قابل ہی نہیں ہیں کہ بجٹ بنا سکیں. فی امان اللہ عمران خان. بہرحال ہمارا سبجیکٹ صرف عمران خان نہیں ہونا چاہیے بلکہ ’پاکستان ہماری جان‘ ہمارا سبجیکٹ ہے.
قاریئن! آئیے بجٹ پہ نظر ڈالتے ہیں فیکٹ اور فیگرز کو مدِ نظر رکھتے ہوے، کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط.
پی پی پی نے جب حکومت کو خیر باد کہا اس وقت حالات کچھ اِس طرح سے تھے جی ڈی پی گروتھ تناسب 2.9% جبکہ قرض 14 کھرب روپے، بجٹ خسارہ 7%، کرنٹ اکاوٗنٹ خسارہ 4.658 USD ارب، انفلیشن تناسب 5.9% (سٹیٹ بنک آف پاکستان کے مطابق)، کل اخراجات 3,266 ارب تھے.
جب ن لیگ نے 2018 میں گورنمنٹ چھوڑی، اُس وقت حالات کچھ اِس طرح سے تھے کہ جی ڈی پی تناسب 5.8% جبکہ قرض 26 کھرب روپے، بجٹ خسارہ 2.5 کھرب روپے، کرنٹ اکاوٗنٹ خسارہ 17.99 USD ارب، انفلیشن تناسب 5.2% (سٹیٹ بنک آف پاکستان کے مطابق)، کل اخراجات 5,192 ارب تھے.
تحریکِ انصاف کے بجٹ کے مطابق ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا ہے جسے سب سے زیادہ ناپسند کیا جا رہا ہے. انکم ٹیکس میں 220 ملین آبادی میں سے 1.9 ملین افراد ٹیکس فائلر ہیں اور ان میں سے 183,000 صرف انکم ٹیکس دے رہے ہیں اور سیلز ٹیکس فائلرز کی تعداد 141,000 ہے جبکہ سیلز ٹیکس جمع کروانے والے صرف 43,000 کی تعداد میں ہیں. پوری معیشت کا بوجھ 1% افراد نے اٹھایا ہوا ہے. ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب صرف 12% ہے جو کہ نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں سب سے کم ہے. اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ 12% ٹیکس تناسب کے ساتھ کیسے کوئی گورنمنٹ ملک چلا سکتی ہے. آیئے دیکھتے ہیں کہ
ان ٹیکسز میں اضافہ کتنی حد تک بہتر ہے :
.1 آرڈینس 2019 کے مطابق اثاثہ جات کو ظاہر کرنا تاکہ ٹیکس سیسٹم کے ذریعے بے نامی اثاثہ جات کو معیشت کا حصہ بنایا جا سکے.
2. کسٹم ڈیوٹی کے ذریعے ٹیکسز میں آنے والی کمی کو پورا کیا جا رہا تھا. حتیٰ کہ موجودہ وقت میں پورے خطے میں پاکستان کا سب سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی ٹیرف تھا جسکی وجہ سے خام مال کی قیمت میں کا فی اضافہ ہو جاتا تھا. موجودہ حکومت نے 1600 کسٹم ڈیوٹی ٹیرف لائینز میں کسٹم ڈیوٹی کی معافی دے دی جسکی وجہ سے ڈومیسٹک مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹس میں اضافہ ہو گا.
.3 ٹیکسٹائل سیکٹر میں ٹیکسٹائل مشینری، نان واون کپڑا اور الاسٹومیرک یارن پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی. اس ٹیکسٹائل انڈسٹری کی آمدنی میں اور اضافہ ہو گا.
.4 پیپر انڈسٹری میں پیپر بنانے والے خام مال جیسے کہ وڈ پلپ، پیپر سکریپ کی کسٹم ڈیوٹی میں معافی اور مختلف طرح کے پیپرز پر کسٹم ڈیوٹی 20% سے% 16 کر دی گئی.
.5 فرنیچر اور ریزر کے خام مال کی کسٹم ڈیوٹی میں کمی 3% سے 0% اور 11% سے 3% ہوئی تا کہ ان کی ایکسپورٹس کو بڑھایا جا سکے.
.6 گھریلو اپلائنسز، پرنٹنگ پلیٹ، سولر پینلز، کیمیکل کی صنعتوں کی قیمتوں میں کمی کے لئے ان سے متعلقہ خام مال کی کسٹم ڈیوٹی میں بھی خاطر خواہ کمی کی گئی تاکہ عام عوام ان سے فائدہ اٹھا سکے.
.7 میڈیکل سے متعلقہ ضروری اشیاء اور 19 ادویات، ولسن اور کڈنی سے متعلقہ بیماریوں کے خام مال میں 3% سے 0% میں کمی کر دی گئی.
.8 ایکسپورٹس انڈسٹری سے متعلقہ کی آمدنی کو بڑھانے کے لئے امپورٹڈ خام مال پہ 124 بلین روپے کی کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی گئی
.9 بیکریز اور ریسٹورنٹ کی سپلائز پر سیلز ٹیکس 17% سے 7.5%کر دیا گیا.
.10 پاؤڈر مِلک پر 17% سے 10% سیلز ٹیکس کر دیا گیا.
.11گاڑیوں کے پارٹس، ہتھیار اور گولہ بارود پر 2% مزید سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا تاکہ ان کی انڈسٹری کو فروغ مل سکے.
.12 قبائیلی علاقوں میں موجود سٹیل انڈسٹری کو سیلز ٹیکس استثنا ء دے دی گئی.
.13 شوگر انڈسٹری پر سیلز ٹیکس 8%سے 17% کر دیا گیا لیکن ابھی بھی اس پر جائزہ لیا جا رہا.
.14 سگریٹ کے 5200/1000 sticksسیلز ٹیکس لگایا گیا.
.15 600,000 روپے تک کمانے والے سیلری پیشہ افراد پر کوئی انکم ٹیکس نہیں ہو گا.
.16 400,000 روپے تک کمانے والے نان سیلری پیشہ افراد پر کوئی انکم ٹیکس نہیں ہو گا.
17. . کمپنیز کا موجودہ انکم ٹیکس 29% ہے. ہر سال 1% سے کم ہو کر 2023 تک 25% ہو جائے گا.
قاریئں! جہاں حکومت نے کچھ آئٹم لائنز پر اضافہ کیا جیسے کہ سگریٹ پر سیلز ٹیکس بڑھایا اور ایسے سیلری پیشہ افراد جنکی کمائی کی حد 600,000 روپے تک ہے اس سے عام آدمی کو کیا فرق پڑا. ایک کتاب میں میں نے پڑھا تھا ”کہ انسان کے اندر اگر خوف پیدا کر دیا جائے تو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں ختم ہو جاتی ہیں“. یہی گیم اسمبلی میں بیٹھنے والے امراء کر رہے ہیں. عام آدمی کو اتنا ڈراوٗ کہ خوف سے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا چھوڑ دے. بلاول بھٹو اور مریم صفدر کے لئے عام عوام ایک کھیل ہے جبکہ ”ہمیں اپنی حیثیت کو سمجھنا ہو گا اور آسان سی بات کہ ہم تماشہ نہیں ہیں“.
تحریکِ انصاف نے جب مینڈیٹ جیت کر حکومت سنبھالی تو ملک کے حالات کینسر کے مریض کی طرح تھے. ایسا مریض جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہو اور سنگین حالت میں ہو. اخلاقی طور پر ایسی حالت میں مرض کو سمبھالنا ہی کمال ہمت کی بات ہے. ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، تجارتی اور کرنٹ اکاوٗنٹ خسارہ انتہا پر تھا، ملک کے آپریشنل پروگرامز کو چلانے کے لئے روز انہ کی بنیاد پر قرض لئے جا رہے تھے. آج کل نیب نے جس طرح سے حمزہ شہباز، شہباز شریف، نواز شریف اور زرداری کے خلاف حقائق اکٹھے کر کے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے، کرپشن کے خلاف یہ کمال کامیابی ہے. قاریئن! یقین جانئے جس ملک میں مندرجہ ذیل خامیاں ہوں گی وہ قوم کبھی بھی مالی استحکام حاصل نہیں کر سکتی : منڈیوں میں جھوٹ بول کر سامان بیچنا، انصاف کا نہ ہونا، ظالم کی فوری پکڑ کا نہ ہو نا. احتساب کا عمل بہترین انداز میں شروع ہو چکا اور اس ملک میں ظالم حکمرانوں کا احتساب کرنا ناممکن تھا. سب بہتر ہو گا.
سب سیاست چمکا رہے ہیں اور بھولی عوام اُن کے پیچھے پیچھے راگ الاپ رہی ہے. بھولی اور معصوم عوام کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ان حالات میں پہنچانے والے اِن کے یہی نام نہاد لیڈر زرداری اور شریف فیملیز ہیں جن کے کاروبار اور بنک اکاوئنٹ ملک سے باہر ہیں اور حتیٰ کہ ان لوگوں کا علاج معالجہ بھی غیر ملکی ڈاکٹرز ہی کر سکتے ہیں. پاکستان میں نہ تو ایسے ہسپتال موجود ہیں اور نہ ہی ایسے قابل ڈاکٹرز جو زرداری
اور شریف فیملیز کا علاج کر سکیں. قاریئن! یہ وقت جاگنے کا وقت ہے ان سفاک اور خود غرض لوگوں کو چھوڑنے کا اور ان لوگوں کو خیرباد کہنے کا وقت ہے.
نوٹ:قلم کلب ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ newsdesk@qalamclub.com پر ای میل کردیجیے